Thursday, December 8, 2016

تحقیق کا صلہ

ڈاکٹر عبدالسلام سے کبھی ایک واقعہ سنا تھا ۔ کم و بیش انہیں کے الفاظ میں درج کر رہا ہوں

مجھ سے اکثر پاکستانی طلباء پوچھتے ہیں کہ ہم فزکس ریسرچ میں کیوں جائیں جبکہ پاکستان میں اس کا کوئی خاص صلہ نہيں ملتا ۔ان کی نذر اپنی زندگی کا ایک واقعہ  کرتا ہوں ۔ طالب علمی کے زمانے میں مجھے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں جانا ہوا ۔ ایک دن میں صبح اپنے ہوٹل کی لابی سے گزرنے لگا تو استقبالیہ پہ موجود شخص نے لابی میں موجود ایک جرمن بابے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ میرا انتظار کر رہا ہے ۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ میں وہاں کسی کو نہیں جانتا تھا ۔ خیر میں نے اس بابے سے پوچھا کہ کیا وہ واقعی میرا انتظار کر رہا ہے ۔ اس نے پوچھا تمھارا نام عبدالسلام ہے ۔ میں نے کہا جی ہاں ۔ بولا تم پنجاب سے ہو ۔ میں نے دوگنی حیرت سے کہا جی ہاں ۔ وہ بابا کہنے لگا مجھے کسی نے بتایا تھا کہ تم پنجاب سے ہو اور یہاں قیام پذیر ہو ۔ مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے اگر تم کر سکو تو ۔ میں نے کہا ضرور تو اس بابے نے اپنے چرمی بیگ سے ہیر وارث شاہ کی کاپی نکالی اور کہنے لگا میں اس کا جرمن ترجمہ کر رہا ہوں لیکن کچھ الفاظ کا ترجمہ میرے علم میں نہیں اور نہ ہی مجھے وہ لغت میں ملے ۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے میں سفر بھی نہیں کر سکتا سو مجھے عرصے سے تلاش تھی کہ کسی پنجابی سے ملاقات ہو سکے ۔

جب میں نے اپنے علم کے مطابق جتنے الفاظ کا مطلب مجھے معلوم تھا بتا دیا تو وہ جرمن بابا مجھے شکریہ کہہ کر روانہ ہونے لگا۔ میں نے جاتے جاتے اسے پوچھا کہ جب یہ ترجمہ مکمل ہو جائے گا تو اسے کون پڑھے گا اور اس سے اسے کیا حاصل ہوگا ۔ اس بابے نے تھوڑے سے غصے سے مجھے کہا یہ سوچنا میرا کام نہيں ۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ جو میں کر سکتا ہوں کر جاوں اور جب یہ ہو جائے گا تو اس کی تکمیل ہی میرا صلہ ہوگا

سو پاکستانی طلباء سے میری یہی عرض ہے کہ تحقیق اپنا صلہ خود ہوتی ہے ۔ جو کام کر سکتے ہو وہ کر جاو