Monday, October 10, 2022

لاہور سے محبت - دوسری قسط

ابا مرحوم کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا سینٹرل مڈل سکول میں پڑھے  - پانچویں جماعت تک تو میں ایک ایسے سکول میں پڑھتا رہا جہاں درخت کے نیچے نشست مل جانا خوش قسمتی سمجھا جاتا  تھا لیکن چھٹی جماعت کے لئے ابا مجھے سینٹرل ماڈل سکول کے داخلے کے ٹیسٹ کے لئے لے گئے - عشرے بیت چکے لکن مجھے وہ دن آج بھی یوں یاد ہے جیسسے یہ واقعہ پچھلے ہفتے ہوا -

 کیونکہ میں اپنے ابا کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا 



امتحان کے لیے تین گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا اور ابا نے ہدایت کی تھی کہ پورے تین گھنٹے لگانا - اگر جواب آتے بھی ہوں تو لکھ کر بار بار پڑھنا تاکہ کوئی غلطی نہ رہ جائے 

امتحانی سوالات  بہت آسان تھا 

آٹے کی قیمت کیا ہے 

پی تی وی پر ڈرامے لکھنے والوں میں سے تین مصنفین کے نام لکھو 

علامہ اقبال کس شہر سے تھے  


وغیرہ وغیرہ 

میں ایک گھنٹے میں یہ ان تمام سوالات کے جواب لکھ کر ، انہیں بار بار پڑھ  کر ، تھک چکا تھا سو میں نے فیصلہ کیا کہ بہت ہو چکا - میں نے پیپر ممتحن کو پکڑایا اور باہر چلا گیا 


جیسے ہی میں باہر نکلا، ایک ہجوم نے مجھے آ گھیرا - یہ وہ والدین تھے جو جاننا چاہ رہے تھے کہ امتحان میں کیا سوال تھے 


ایک شخص جو اس ہجوم کا حصہ نہیں تھا  وہ میرے ابا تھے جو مجھے اتنی جلد باہر آنے پر گھور رہے تھے 


اس تمام دن ابا نے  مجھ سے بات نہیں کی - میں انہیں کہتا رہا کہ تین گھنٹے بہت زیادہ وقت تھا اس امتحان کے لئے لیکن وہ ناراض ہی رہے 



اگلا روز نتیجے کا دن تھا 

ہم ابا کے سکوٹر پر سوار ہو کر سنٹرل ماڈل سکیل پہنچے 

ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے باہر داخلے کے امتحان کا نتیجہ نصب تھا 


 ابا نے پڑھا اور مجھے گود میں اٹھا لیا یہ کہتے ہوئے کہ 

"اوئے توں تیسرے نمبر تے آیا ایں "


آج تک علم نہیں کہ پہلے دو منحوس کون تھے 



سنٹرل مڈل سکول کی یادیں اگلی قسط میں