Sunday, January 31, 2021

سر گنگا رام کا لاہور

 امریکی انتخابات ہمیشہ سے میری دلچسپی کا موضوع رہے ہیں لیکن اس دفعہ یہ انتخابات شائد کسی بھی انخاب سے زیادہ اہم تھے  کیونکہ اس دفعہ مقابلہ دو اشخاص کے درمیان نہیں، دو اقدار کے درمیان تھا - وفاقی انتخاب سے نظر ہٹی تو دیکھا کہ امریکی ریاست ورمونٹ میں ایک کیشا رام نامی خاتون ریاستی سینیٹ میں منتخب ہونی ہیں - نام سن کر تجسس ہوا کہ خاتون کے بارے میں کچھ معلوم کیا جائے - مجہے علم نہیں تھا کہ کیشا رام کے ذریعے لاہور کے ایک محسن سے ملاقات ہو جائے گی - کیشا رام ہمارے سر گنگا رام کی پڑپوتی ہیں 


تمام شہر عظیم لوگوں کے مسکن ہوا کرتے ہیں لیکن شائد ہی پاکستان کا کوئی اور شہر ایسا ہو جس پر کسی ایک شخص کی ایسی چھاپ ہو جیسی سر گنگا رام کی لاہور پر ہے - جدید لاہور کی تاریخ لکھی جائے تو اس کا عنوان سر گنگا رام ہی ممکن ہے 


انیسویں صدی کے وسط میں ننکانہ صاحب میں پولیس افسر دولت رام کے گھر پیدا ہونے والے گنگا رام نے تعلیم لاہور اور برطانیہ سے حاصل کی اور پھر پنجاب میں بطور سول انجنیئر تعینات ہوے - گنگا رام عام سرکاری ملازموں کی طرح صرف روزمرہ کے احکامات بجا لانے والوں میں سے نہیں تھے - اس سرکاری ملازم کے اندر دو ایسی خصوصیات تھیں جو عام سرکاری ملازموں میں کم ہی پائی جاتی ہیں - ان کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ وہ صرف سول انجنیئر ہی نہیں، ایک فنکار بھی تھے - جس لاہور میں میں پلا بڑھا اس کے ہر کونے میں سر گنگا رام کے فن کا راج ہے - سر گنگا رام نے جو عمارات تخلیق کیں ان میں لاہور عجائب گھر، لاہور ہائی کورٹ، جنرل پوسٹ آفس، ایچسن کالج، نیشنل کالج اوف آرٹس، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ اور متعدد اور عمارات شامل ہیں - ان میں ہیلی کالج اوف کامرس بھی شامل ہے جسے نہ صرف گنگا رام نے تعمیر کیا بلکہ اس کے قیام کی تجویز بھی انہیں کی تھی - جب شہر پر آبادی کا دباؤ بڑھا تو سر گنگا رام نے شہر سے باہر ایک بستی کا منصوبہ تجویز کیا جسے آج دنیا ماڈل ٹاؤن کے نام سے جانتی ہے - جس عمارت سے تمام لاہورئیے سر گنگا رام کو منسوب کرتے  ہیں وہ سر گنگا رام ہسپتال ہے جو انہوں نے خود اپنی جیب سے تعمیر کیا - اس کے علاوہ سر گنگا رام ہائی سکول بھی انہیں کی عطا تھی جو بعد میں لاہور کالج فور وومن بن گیا - سرگنگارام نےلاکھوں کمائےاورلاکھوں اپنےلوگوں کی فلاح میں لگا دئیے


ان کی دوسری خصوصیت ان کے دل میں اپنے لوگوں کی بھوک کا احساس تھا - وہ جانتے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوراک کے وسائل ناکافی ہوتے جا رہے ہیں - تھے تو وہ سول انجنیئر لیکن اس  مسئلے کے حل کے لئے انہوں نے زرعی تحقیق شروع کردی -  اس کے بعد سر گنگا رام نے منٹگمری اور لائل [پور میں ہزاروں ایکڑ بنجر ارضی کو جدید طریقوں سے قابل کاشت بنا دیا - آج بھی رینالہ خورد اور گنگا پور کے دہقان سر گنگا رام کی اس عطا سے فیضیاب ہو رہے ہیں - سر گنگا رام جدت پسند تھے اور ان کے نزدیک جدید مسائل کا قدیم حل ڈھونڈنا وقت ضائع کرنا تھا اسی لئے جب ان سے گاندھی جی کے چرخے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ چرخہ صرف چولہا جلانے کے لئے استعمال کرنا چاہیے 


سر گنگا رام کا انتقال لندن میں ہوا - ان کی آدھی راکھ گنگا میں بہائی گئی اور آدھی ان کی خواہش کے مطابق اس لاہور میں دفن کی گئی جس سے انہیں عشق تھا - ان کی سمادھی راوی روڈ لاہور میں واقع ہے - لاہور کے اکثر باسیوں کو اس کے محل وقوع کا بھی علم نہیں 


لاہور کے اس ہیرو کو اس کا جائز مقام دینا تو درکنار  ہم تو اس کی توہین کے گناہ گار ہیں - جب ایک مصنوعی شناخت کے حصول کے لئے نفرت کا بازار گرم کیا گیا تو ہم نے اچھائی اور برائی کو مذھب سے نتھی کر دیا - ہر ہم عقیدہ دوست بنا اور باقی سب دشمن - اسی نفرت کی آندھی کی لپیٹ میں آ کر بلوائیوں نے مال روڈ پر لگے سر گنگا رام کے مجسمے پر حملہ کردیا اور اسے جوتوں کے ہار پہنائے - حساس سعادت حسن منٹو نہ رہ سکا اور اس نے اس حملے پر ایک طنزیہ تحریر لکھی کہ مجسمے کو جوتوں کا ہار پہنانے والا پولیس کے ہاتھوں زخمی ہوا تو کسی نے آواز لگائی کہ اسے جلدی سے گنگا رام ہسپتال لے چلو - بابری مسجد کے سانحے کے بعد جذباتی اہل ایمان نے لاہور میں واقع کئی مندر تو ڈھائے ہی مگر سر گنگا رام کی سمادھی پر بھی حملہ کر کے اسے نقصان پہنچایا - یہ زخم بہت گہرا تھا لیکن اس پر نمک تب چھڑکا گیا جب سر گنگا رام کے خاندان نے پاکستانی حکومت کو سمادھی کی مرمت کے لئے رقم کی پیشکش کی جو حکومت نے قبول کر لی -  لاہور کی قسمت میں شائد اس سے بڑی شرمندگی ممکن نہیں